**استاد بادشاہ نہیں ہوتا ہے بادشاہ بناتا ہے ***
تحریر 🖊: محمد فیروز عالم علاںٔی
(کلکتہ یونیورسٹی)
mdfirozalam7869278692@gmail.com
لفظ" علم "کا ذہن میں گردش کرنا، ایک لفظ کو سامنے لاتا ہے جس کے بغیر علم کا آنا محال اور مشکل ہے وہ لفظ" استاد" ہے
استاد وہ عظیم ہستی ہے جو آدمی کو انسان بنا دیتا اور آدمی کو حیوانیت سے نکال کر انسانیت کے گھر سے آشنا کرواتا ہے، استاد ہی وہ شخصیت ہے جو تعلیم و تربیت کا محور ومنبع ہوتاہے ، جو مانند پتھر کو تراش کر ہیرا بنا دیتا ہے تو میرا کہنا بے جا نہ ہوگا کہ "استاد بادشاہ نہیں مگر بادشاہ ضرور بناتا ہے "
تاریخ اس بات پر شاہد ہے ،ترقی یافتہ قوموں اور مہذب معاشروں میں استاد کو ایک خاص مقام اور نمایاں حیثیت حاصل ہوتی ہے کیونکہ مہذب پرامن اور با شعور معاشرہ کی تشکیل ایک استاد ہی کی مر ہون منت ہے۔
اشفاق احمد کا قول: " برطانیہ میں ٹریفک قوانین کے خلاف ورزی پر مجھ پر جرمانہ عائد کیا گیا میں مصروفیت کی وجہ سے چالان جمع نہ کر سکا تو مجھے کورٹ میں پیش ہونا پڑا ۔کمرہ عدالت میں جج نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے کیوں چالان جمع نہیں کیا تو میں نے کہا کہ میں ایک پروفیسر ہوں اکثر مصروف رہتا ہوں اسی لیے میں چالان جمع نہیں کر سکا تو جج نے کہا " the teacher is "in the court
اور پھر جج سمیت سارے لوگ اس کی تعظیم میں کھڑے ہو گئے ،اس دن سے میں اس قوم کی ترقی کا راز جان گیا ،حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا گیا کہ استاد کس کو کہا جائے تو آپ نے جواب دیا جو ایک شخص کو صرف دو حروف الف اور ب سکھائے وہ استاد کہلاتا ہے وقت کے خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق سے کسی نے سوال کیا کہ اتنی بڑی اسلامی مملکت کے خلیفہ ہونے کے باوجود آپ کے دل میں کوئی حسرت باقی ہے ؟ آپ نے فرمایا کاش میں ایک معلم ہوتا! یہ بات اس طرف اشارہ دیتی ہے کہ ایک معلم کا مقام خلیفہ سے بڑھ کر ہے ، ڈاکٹر علامہ اقبال فرماتے : " "استاد دراصل قوم کے محافظ اور معمار ہوتے ہیں کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا انہی کے سپرد ہے " تاریخ کے اوراق اس بات پر مبنی ہے کہ جس قوم نے بھی اپنے استاد کی احترام کو بجا لایا وہ قوم ممتاز راہ پر گامزن رہا ،ایسا کیوں نہ ہو ؟ استاد آدمی کو یہ پیغام دیتا ہے کہ معاشرے میں لوگوں کے ساتھ کیسے رشتے قائم رکھنے چاہیے،استاد ایک معمولی سے آدمی کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے استاد مینار نور ہے ،جو اندھیرے میں ہمیں راہ دکھلاتا ہے ایک سیڑھی ہے جو ہمیں بلندی پر پہنچا دیتی ہے، ایک انمول تحفہ ہے جس کے بغیر انسان ادھورا ہے ،لہذا ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے اساتذہ کی تعظیم کو بجالائے ۔
ہم کیا چیز ہیں !!
وقت کے بڑے بڑے حکمران تعظیم کی خاطر اپنے استاد کے سامنےاپنی کرسی سے نیچے آگئے شہنشاہ وقت اورنگزیب نے اس حسین سنگم کو بجا لایا ،دور حاضر میں یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کے طالب علم اپنے استاد کو تنخواہ دار ملازم سمجھتا ہے نہ کہ استاد یہی وجہ ہے کہ آج علم ناپید ہوتا جا رہا ہے اتنے اسکول کالج یونیورسٹی ہونے کے باوجود معاشرے میں اخلاقیات اور تہذیب کا کوئی نام نہیں ہے۔۔۔۔!!!!
محترم قارئین! علم کی قدر اس وقت ممکن ہے جب معاشرے میں استاد کو عزت دی جائے گی ، جو طالب علم اپنے استاد کو عزت کی نظروں سے دیکھتا ہےوہ طالب علم ہمیشہ کامیاب رہتاہے جو استاد کی تعظیم کو سر آنکھوں پر رکھتا ہے وہ منزل پاتا ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو استاد کی تعظیم و توقیر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کا سایہ ہم پر ہمیشہ رکھے آمین ثم آمین یارب العالمین۔۔۔
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں